یہی زندگی قہقہے شادمانی
ہمیشہ حسینوں سے آنکھیں لڑانی
سدا کامیابی، سدا کامرانی
بہت یاد آتی ہیں باتیں پُرانی

اب ہماری جوانی کا قصہ ۱۱ ستمبر سے بڑی آفت ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو جارج بش ہی کریں گے۔ مگر مجھے اِتنا یاد ہے کہ ایامِ طفلی سے ہی فدوی 20 سال سے زائد عمر کی خواتین کی گود میں جانے سے انکاری رہا۔ کالج سے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ آپ کے بیٹے کو لڑکیوں کے ساتھ بیٹھنے کی عادت ہے۔ والدہ نے زیادہ سرزنش نہیں کی۔ شاید اُنہیں یہی شکایت والدِ محترم سے بھی تھی۔ مگر ابا جان بوجۂ پیشۂ سپہ گری مجھے یہ جمہوری آزادی دینے کے قائل نہیں تھے۔ اُن کی اِسی نائق کے باعث فدوی کوایجوکیشن کی نعمت سے ہمیشہ محروم رہا۔ خیر میٹرک کرنے کے بعد نیوی سے منسلک ہوئے اور اُس کے بعد ہمت کا علم، موجوں پہ قدم، نیول اکیڈمی کے آس پاس صنفِ نازک کا وجود اتنا ہی ناپید تھا جتنا ریما کے رقص سے اعضا کی شاعری۔ اور ہر کھانے کی میز پر اس صنف کےجسمانی خوائص پر اس تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی کہ اُنہیں یقین ہوگیا کہ اگر میں کچھ روز اور اس صحبت میں رہا تو جنت کے دروازے ہمیشہ کے لیے میرے پہ بند کر دیے جائیں گے۔ خیر ٹریننگ سے فارغ ہوئے۔۔۔ جان چھٹی۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دن رات کوئے نگارا کے پھیرے
وہ کمرے فروزاں ، وہ زینے اندھیرے
وہ زلفوں کے حلقے، وہ بانہوں کے گھیرے
وہیں کو چٹو جا کے راتیں بِتانی
بہت یاد آتی ہیں باتیں پُرانی

وہ سردی کی راتیں، وہ جاڑے کا جوبن
لحافوں میں کم سِن دلوں کی وہ دھڑکن
چھڑانا اُن ہاتھوں سے اپنا وہ دامن
وہ آنگن میں مہکی ہوئی رات دانی
بہت یاد آتی ہیں باتیں پرانی

اور پھر طرفۂ تماشا یہ کہ ہمیں احباب بھی وہ میسر آئے کہ جو اوباشی اور اخلاق باختگی میں ایک نئے مکتبۂ فکر کے بانی ہیں۔ ایک صاحب یوسف کہ نام کا اثر شکل و صورت پر بالکل نہیں ، شکل اس سے یکسر پا ، نرسوں سے خاص رغبت رکھتے ہیں۔ ایک دن فرمانے لگے کہ میں نے ایک نرس سے پوچھا کہ نوکری کیسی چل رہی ہے؟ تو کہنے لگی سر نوکری کا کیا ہے سارا دن یس سر یس سر کرتے گزر جاتا ہے اور ساری رات نو سر نو سر کرتے کرتے۔
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
بہت بار ریہرسل کی۔

خیر وہ زمانہ تو یوں گزرا کہ رات کو یہ عالم ہوتا تھا کہ
دی مؤذن نے شبِ وصل اذاں پچھلے پہر
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

اور دن کو یہ روٹین تھی کہ جہاں لڑکی دیکھی پیچھے پیچھے چل پڑے، خوبصورتی کوئی شرط نہیں، لمبا چوڑا تعلق رکھنا نہیں،
شاعرِ مشرق نے خود فرمایا کہ

جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزہ ہے اے پسر
وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

خیر ہمارا قصۂ جوانی ملکی وسائل پر ہی محدود رہتا اگر حکومتِ وقت ہمیں باہر نہیں بھیجتی تو وہاں جاکر ہم نے دیکھا کہ

ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

جہاں جاؤ یوں محسوس ہوتا تھا کہ بے واچ کے شوٹنگ چل رہی ہے تب پھر احساس ہوا کہ اگر انگریز نے ہم پہ سو سال حکومت کی ہے تو اس کی غیر سیاسی وجوہات میر جعفر اور میر صادق کے علاوہ

کچھ اور بھی تھیں کہ عرضِ کلیسہ کا ہر ماہ پارہ
سنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں

تو ہماری اس کثرت اختلاط سے جیلس اور حسرتِ اختلاط میں مبتلا چند سینئرز نے کہا کہ ٹھیک ہے عیاشی کرلو مگر یاد رکھو کہ ایڈز بہرحال لاعلاج مرض ہے مگر میں نے اس چیز کا کوئی غم نہیں لگایا، کوئی حفاظتی تدابیر نہیں کی کیونکہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اُس کے بعد کچھ شب و روز یوں گزرے کہ

سجی خلوتوں میں کبھی شغلِ مینہ
وہ محبوبۂ خوش ادا خوش کرینہ
کبھی اُس کے ہاتھوں سے ضد کرکے پینا
کبھی اپنے ہاتھوں سے اُس کو پلانی
بہت یاد آتی ہیں باتیں پُرانی

خیر یورپ سے واپسی پر مایوسی تو بہت ہوئی، مگر جلد ہی دور بھی ہوگئی کیونکہ ماشاء اللہ ہمارا ملک بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اور ڈش اور کیبل نے وہ نمی تو فراہم کر ہی دی ہے اسی لیے اب صائمہ اور پمیرا انگریسن کی جسمانی مماثلت کے موازنے کے لیے آپ کو چشمِ بینا کی ضرورت نہیں ہے خیر میں اس قصہ کو طول دوں تو شبِ فراق اور سمیٹ لوں تو دلِ عاشق لیکن وہ گئے زمانوں کی باتیں ہیں اب تو بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اب

نہ وہ دل نہ وہ دل کی نادانیاں ہیں
نہ وہ ہم نہ وہ بزم سامانیاں ہیں
نہ وہ دوستوں کی گل افشانیاں ہیں
نہ وہ فکرِ رنگیں کی جولانیاں ہیں
گئی شعر گوئی رہی نوحہ خوانی
وہ بیتی جوانی وہ بیتی جوانی
0 Responses

Post a Comment