پاکستان اور خصوصاً کراچی جیسے بڑے شہر میں بڑھتی ہوئی چوریاں اور ڈاکے اور چھینا جھپٹی کی تعداد میں روزافزوں اضافہ کے ساتھ ساتھ دن میں کئی دفعہ مختلف جگہوں پر چوری ہونا ایک معمول بن گیا ہے۔ دن میں بینک، زیورات، موبائل اور ڈھیروں گاڑیاں چھینی جا رہی ہیں ایسا ہی سانحہ کل ہمارے ایک دوست کے ساتھ بھی ہوا کہ اُنہوں نے صبح میں موٹرسائیکل ہانڈا 125 نیو، زیرومیٹر خریدی اور شام کو جب وہ اپنے دوست کو دکھانے (نیوکراچی) گئے تو گاڑی اُن کی نہ رہی اور یوں اُن کو تقریباً ایک لاکھ کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔

میں جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ سنتا یا پڑھتا ہوں یا مجھے کوئی بتاتا ہے تو میری زبان پر ایک ہی بات ہوتی ہے کہ یہ تو ہونا ہی ہے بلکہ یہ چیز تو ابھی اور بڑھے گی اس طرح یہ چیز کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ اس کی بنیادی وجہ روزگار ہے کیوں کہ جب ایک آدمی کے پاس روزگار نہیں ہے اور اُس کے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں تو اب وہ کیا کرے گا، صرف دو صورتیں ہوں گی ایک یہ کہ اگر وہ کمزور ہوگا تو بھیک مانگے گا اور اگر تھوڑا طاقت ور ہوگا تو پھر اسی طرح چوری وغیرہ کرے گا۔ یہاں ایک بات اور بغور رکھنی چاہیے کہ اسلام میں چوری کی سزا جو ہاتھ کاٹنا مقرر کی گئی ہے وہ بھی کھانے کے علاوہ دوسری چیزوں میں ہے، اگر کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور پھر چوری کی ہے تو اُس پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

لہٰذا زیادہ تعداد میں چوری کی وجہ ہی یہ ہےاور اس کو روکنے کے لیے حالات کو بہتر کرنا ہوگا، بصورت دیگر یہ چیز ختم تو ناممکن بلکہ اور بڑھے گی۔ اور ہمار ے یہاں کے طریقہ کار کے مطابق کہ حکمرانوں نے واردات کے بعد نوٹس لے لیا اور ایک دو کو پکڑ کے سزا دلوادی اس طرح سے کبھی بھی اور کسی صورت بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔
زمرے edit post
0 Responses

Post a Comment