گزشتہ ہفتے اجمل صاحب نے پہلے ایک پوسٹ بعنوان’’میلادالنبی ۔ ایسا کیوں ؟‘‘ پیش کی اور اُس کے بعد میرے ایک تبصرہ کرنے پر اپنا جواب دے کر اُس کو ایک اور پوسٹ بعنوان ’’ایک معذرت ۔ ایک وضاحت‘‘ میں وضاحت کے نام سے پیش کرکے اپنے ہم خیالوں سے داد وصول کی۔

پہلی پوسٹ کو دیکھ کر صرف ایک تبصرہ کرکے میرا یہ خیال نہیں تھا کہ میں بلاوجہ کی بحث میں پڑجاؤں لیکن جب اُنہوں نے دوسری پوسٹ لکھ کر اپنے جواب کو از خود سراہنا چاہا تو پھر میں نے اللہ اور اس کے رسول کی شریعت میں حق کو واضح کرنے کے لیے ایک تفصیلی جواب لکھا جس پر پھر اُنہوں نے موضوع کو تھوڑا بدل کر کسی اور طرف سے بیان کردیا میں نے پھر اُس کا تفصیلی جواب دیا تو اجمل صاحب کو شاید برا لگ گیا اور آخر میں جو سب کے منہ پر ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ہی حضرت نے کہہ دی کہ ’’آپ اپنا قیمتی وقت کیوں ضایع کر رہے ہیں‘‘ کیوں کہ لوگ شاید یہ چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو صحیح دکھانے کے چکر میں دوسروں پر اعتراض کرنا ہے تو اُن کے خلاف کچھ بھی جمع کرو اور ادھر ادھر سے اُٹھاؤ اور بلاگ پر لگاؤ دو تین ہم خیال آکر داد دے دیں بس ہوگیا کام، اگر آپ کے پاس کسی کو جواب دینے کی طاقت اور ہمت اور اتنا علم بھی نہیں ہے خصوصاً دین کے معاملے میں تو پھر بلاوجہ کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا آپ جیسوں کا کام نہیں ہے۔ بہرحال اب کیوں کہ میں اس پر دو بڑے تبصرے دے چکا ہوں تو وہی اپنے بلاگ پر شیئر کر رہا ہوں تاکہ کوئی آئندہ بلاوجہ کسی پر اعتراض کرنے سے پہلے اس کو ضرور دیکھ لے۔ کسی کو برا لگے تو معذرت۔ میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے جس کسی کو بھی بات کرنی ہو وہ اپنی بات کرے دوسروں پر بلاوجہ تنقید اور اعتراض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اور اگر دین کو بیچ میں لاکر غلط مطلب نکالا جائے گا تو پھر یاد رہے کہ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (الایۃ) ’’جو تم پر زیادتی کرے اس پر تم بھی اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے کی ہے‘‘۔

میرا پہلا تبصرہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے، اور ظاہر ہے کسی کو بھی نہیں‌ہوگا۔ اور قرآن کی ایک ایک آیت پر ایمان لانا فرض ہے، لہذا سورہ ضحیٰ میں جو اللہ رب کائنات نے فرمایا واما بنعمت ربک فحدث ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ تو اس آیت کو بیان کرنے میں‌کوئی حرج نہیں ہے، مزید تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر پڑھ لیجیے۔

دوسری بات یہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے، بعد میں‌اس کے مختلف مترجمین نے ترجمہ کیے، تو کچھ لوگ ترجمہ کرنے میں بھٹکے بھی ہیں اور کچھ عالم نہ ہوکر بھی ترجمہ کر بیٹھے اور صحیح ترجمہ نہیں کرپائے لہذا ترجمہ کے معنی و مفہوم میں کچھ ذرا سی تبدیلی پیدا ہوگئی، میری نظر میں امام احمد رضا کا ترجمہ ایک اچھا ترجمہ ہے کیوں کہ اُس میں ایک ایک چیز کا خیال رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت بطور مثال مختلف تین مترجمین سے پیش کر رہا ہوں، سورۃ البلد کی آیات ملاحظہ کریں:
أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِO وَلِسَاناً وَّشَفَتَیْنِO وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِO (البلد:8 تا 10)
ترجمہ: ”کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور اسے دو ابھری چیزوں کی راہ بتائی۔” (کنز الایمان، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا)

”کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے۔ اور (پھر) ہم نے ان کو دونوں دونوں رستے (خیر و شر کے) بتلادیئے۔” (مولوی اشرف علی تھانوی)

”بھلا ہم نے نہیں دیں اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور دکھلادیں اس کو دو گھاٹیاں۔” (مولوی محمود الحسن دیوبندی)

مولوی اشرف علی تھانوی نے ”نجد” کے معنی خیر و شر کے رستے بتادیئے جبکہ مولوی محمود الحسن دیوبندی نے ”النجد” کے معنی دو گھاٹیاں (وادیاں) بتادیں۔

’’ آیات بتارہی ہیں کہ اس کو اللہ نے دو آنکھیں دیں، ایک زبان اور دو ہونٹ، اگلی آیت میں راہ کا تعین ہے اور وہ ہے دو ابھری ہوئی جگہیں۔ یہ اصل میں اشارہ ہے اس گود کے بچے کی طرف کہ جب وہ اپنے ان دو ہونٹوں سے ماں کے سینے پر دو ابھری جگہوں میں اپنی غذا کی راہ پاتا ہے۔ ماں کا یہ پستان گھاٹیاں نہیں ہیں اور نہ ہی خیر و شر کے دو راستے بلکہ یہ اس کے سینے پر دو ابھری چیزیں ہیں جس کو ہم پستان کہتے ہیں اور عربی میں لفظ ”نجد” کے معنی ہی بلند جگہ کے ہیں اور عربی میں Plateau یعنی ابھری ہوئی زمین کو نجد کہتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ترجمہ کرتے وقت ایک ایک بات کا خیال رکھتے ہیں اور یہاں لفظ پستان بھی نہیں لائے بلکہ دو ابھری چیزوں کے ساتھ ترجمہ کرکے فصاحت و بلاغت کو بھی قائم رکھا اور شرم و حیا کا بھی پاس رکھا اور حسن سلاست بھی قائم ہے جبکہ دیگر مترجمین ”نجد”کی اصطلاح کی گہرائی تک ہی نہ پہنچ سکے۔‘‘ (ماخوذ از، اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ، پروفیسر مجید اللہ قادری)

اجمل صاحب:
مرزا صاحب
میرے بلاگ پر تشریف لانے اور اپنی مفید رائے سے مستفید کرنے پر مشکور ہوں
قرآن شریف کی کسی آیت کا بغیر سیاق و سباق ترجمہ لے کر رائے قائم کرنا درست نہیں ہے ۔ سورت الضحٰی کی متذکرہ آیت کو باقی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھیئے تو وہ مطلب نہیں نکلتا جو کتبہ لکھنے والے اور آپ نے لیا ہے ۔ یہ خیال رہے کہ مخاطب سیّدنا محمد ﷺ ہیں

سورت ۔ 93 ۔ الضحٰی ۔ آیایات ۔ 6 تا 11
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى 0 وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَھَدَى 0 وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى 0 فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْھَرْ 0 وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْ 0 وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ 0
ترجمہ ۔ بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ 0 اور راستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا راستہ دکھایا 0 اور تنگدست پایا تو غنی کر دیا 0 تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا 0 اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں 0 اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا 0

اب دوسرا مسئلہ جو آپ نے احمد رضا بریلوی صاحب کے نام منسوب کیا ہے
“نجد” کے معنی عورت کے پستانوں کی مانند ” اُبھری ہوئی چیز” کیسے بنے میری سمجھ میں نہیں آ رہا
” نجد” فعل اور اسم دونو طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیت ۔ 10 میں ” نجدین” آیا چنانچہ بطور اسم استعمال ہوا ہے ۔ ” نجد” اسم ہو تو اس کے معنی ہیں “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” جسے انگریزی میں plateau کہتے ہیں ۔
فعل کے طور پر نجد کے معنی ہیں ۔ جان بچانا ۔ چھڑانا ۔ نجات دلانا ۔ رہا کرانا
عورت کے سینے کے اُبھاروں کو “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” نہیں کہا جا سکتا
محمود الحسن اور اشرف علی تھانوی صاحبان کے تراجم عربی لفظ ” نجد” کے قریب ترین ہیں
سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ کی آیات ۔ 5 تا 11 پڑھیں تو عورت کے سینے کے اُبھار کسی طرح فِٹ نہیں ہوتے
نیچے طاہر القادری صاحب کا ترجمہ نقل کر رہا ہوں جو فی زمانہ بریلوی مسلک کے سب سے بڑے عالم ہیں ۔ انہوں نے بھی “دو راستے” لکھا ہے
سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیات ۔ 5 تا 11
5 ۔ أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْہِ أَحَدٌ
کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر ہرگز کوئی بھی قابو نہ پا سکے گا؟
6 ۔ يَقُولُ أَہْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا
وہ (بڑے فخر سے) کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کیا ہے
أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَہُ أَحَدٌ7 ۔
7. کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے (یہ فضول خرچیاں کرتے ہوئے) کسی نے نہیں دیکھا
8 ۔ أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَيْنَيْنِ
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں
9 ۔ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ
اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)
10 ۔ وَہَدَيْنَاہُ النَّجْدَيْنِ
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے
11 ۔ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ
وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا

میرا تبصرہ:
جناب اجمل صاحب!
آپ نے فرمایا: آیت ملاکر پڑھیے تو وہ مطلب نہیں نکلتا تو میری گذارش ہے کہ آپ بھلے باقی آیات کے ساتھ ملاکر پڑھیں یا الگ الگ پڑھیں مطلب سیدھا سیدھا ہے اور میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ قرآن کی ایک ایک آیت پر ایمان لانا فرض ہے، پھر آپ نے بیان فرمایا کہ یہ خیال رہے کہ مخاطب سیدنا محمدﷺ ہیں تو اس سے دو معنی مراد لیے جاسکتے ہیں ایک تو یہ کہ کیوں کہ مخاطب سیّدنا محمد ﷺ ہیں لہٰذا یہ آپﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اُس زمانے کے لیے خاص ہے۔

تو جہاں تک رہی بات آپﷺ کے ساتھ خاص ہونے کی تو آپ اس سے پہلے والی آیت کو پڑھیں جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’ اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں‘‘ تو آپ کے خیال سے کیا خالی حضورﷺ کسی مانگنے والی کو نہ جھڑکیں، مطلب ہم جھڑک سکتے ہیں تو بھائی ایسا نہیں ہے سب علمائے کرام نے منگتا کو نہ جھڑکنے کی دلیل اسی آیت سے لی ہے۔

اور جہاں تک رہی بات زمانے کے ساتھ خاص ہونے کی تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قرآن مجید تو قیامت تک کے لیے ہے، یہ نہیں کہ قرآن کا کچھ حصّہ تو قابل عمل ہو اور کچھ حصّہ اب قابل عمل نہ رہا ہو۔ استغفراللہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا (سورۃالفرقان، آیت:۱) ’’بڑی برکت والا ہے وہ جس نے فیصلہ کرنے والی کتاب اپنے (مقدس) بندے پر اُتاری تاکہ وہ تمام جہانوں کو ڈرانے والا ہو‘‘، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بارے میں فرمایا: ’’ھُدی للناس‘‘ (لوگوں کو ہدایت کرنے والا) ’’الناس‘‘ میں قیامت تک آنے والے لوگ شامل ہیں، لہٰذا قرآن کریم کی آیت وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک تک خاص نہیں بلکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، قرآن کی ہدایت سب لوگوں کے لیے ہے۔

مثال کے لیے ایک اور آیت ملاحظہ کریں:
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔(سورۃ النسآء، آیت: ۶۴)
ترجمہ: ’’اور اگر وہ کبھی اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آجاتے آپ کے پاس پھر مغفرت طلب کرتے اللہ سے اور مغفرت طلب کرتا اُن کے لیے رسول تو ضرور پاتے اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا۔‘‘
اب یہ کہنا کہ یہ آیت اُسی زمانے کے مسلمانوں کے لیے تھی، جب حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اُس زمانے میں زندہ موجود تھے اور لوگ وہاں پہنچ سکتے تھے۔ یہ بات اس لیے قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جس زمانے میں ظاہراً حیات کے ساتھ موجود تھے، اُس زمانے میں اسلام مشرق و مغرب میں پھیل چکا تھا اور دور دور کے لوگ مسلمان ہوچکے تھے اور اُس زمانے میں سارے مسلمان حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر نہیں ہوسکتے تھے۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت کی بنیاد پر فرمایا کہ یمن سے محبت کی بُو آتی ہے، لیکن حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر نہیں ہوئے، حالانکہ وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے، تو کیا یہ آیتِ کریمہ اُن کے لیے نہ تھی؟ اب یہ کہنا کہ یہ آیت فقط اُس زمانے کے مسلمانوں کے لیے تھی جو وہاں پہنچ سکتے تھے، تو یہ بات قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
یہ تو ایک خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات میں نے کہی، آپ کے علاوہ ہزاروں مسلمان سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے، لیکن وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضری نہیں دے سکے، تو معلوم ہوا کہ یہ بات نہیں۔

قرآن پاک سے میلاد منانے کے ثبوت میں یہ آیات ملاحظہ کریں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَمْ تَرَ اِ لَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللہ کُفْرًا
جن لوگوں نے اللہ عزوجل کی نعمت کے بدلے کفر اختیار کیا۔ (پ۱۳، ابراہیم:۲۸)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی خدا کی قسم! نعمت کا انکار کرنے والے کفار قریش ہیں اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کی نعمت ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، رقم الحدیث:۳۹۷۷ صفحہ۶۷۱)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللہ وَبِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
تم فرماؤ کہ اللہ عزوجل کے فضل اور اس کی رحمت، اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے۔ (پ ۱۱یونس:۵۸)
فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ (ڈاکٹر طاہرالقادری)
الحمدللہ علی ذالک! ساری دنیا کے اہل ایمان و اہل محبت اس نزولِ فضل و رحمت (یعنی نبی کریمﷺ کی تشریف آوری) کے دن عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں نہایت ذوق و شوق اور اہتمام سے خوشی مناکر حکم قرآنی پر عمل کرتے ہیں۔

علامہ قسطلانی لکھتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفل میلاد منعقد کرتے ہیں، دعوت کا اہتمام کرتے ہیں، اور میلاد کی راتوں میں صدقہ و خیرات کرتے ہیں، خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں، میلاد شریف پڑھتے ہیں اور میلاد شریف کی برکت سے ان پر اللہ تعالیٰ کا فضلِ عام ہوتا ہے اور محفل میلاد کے خواص میں سے یہ ہے کہ اس سال امان رہتی ہے، اور مطلوب کی بشارت جلد مل جاتی ہے‘‘۔
علامہ قسطلانی کے حوالے سے اس عبارت کو علامہ حسین بن محمد دیار بکری، علامہ ابن عابدین شامی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور دیگر مشائخ نے اپنی اپنی تصانیف جلیلہ میں بیان کیا ہے۔(شرح صحیح مسلم، کتاب الصیام، جلد3، صفحہ۱۸۸ تا ۱۹۰، مصنفہ علامہ غلام رسول سعیدی)

اور ویسے بھی یہ تو ایک مستحب چیز ہے اس میں دلائل سے اس کو ناجائز ثابت کرنا ایک بلاوجہ کی بات ہے کیوں کہ اگر آپ ایک جگہ بیٹھ کر حضورﷺ کی تعریف و توصیف میں کلمات کہہ دیں تو اس میں کیا حرج ہے یہ میری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ لوگوں کو اس سے کیا تکلیف ہے۔ بہرحال جس کا جو دل کرے وہ کرے اصل مسئلہ مسلک سے اختلاف کا میلاد نہیں اور نہ ہی صلاۃ و سلام ہے کیوں کہ یہ ایک مستحب چیز ہے جس کو پڑھنا ہے پڑھے نہیں پڑھنا تو مرضی۔ اصل جو اختلاف ہے وہ تو چند مسائل پر ہے، جیسا کہ علم غیب؟ حیات النبی؟ حاضر و ناظر؟ وغیرہ وغیرہ اور ان موضوعات پر بحث کرنے کے لیے بہت وقت اور بہت جگہ چاہیے، جس کو شوق ہو وہ خود علمائے اہلسنت کی لکھی ہوئی کتابیں معلوم کرے اور پھر اُن کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کرے۔

دوسرا آپ نے کہانجدین کے معنی کا مسئلہ تو تفسیرِ طبری، بغوی، رازی، نسفی وروح المعانی وغیرہ تفاسیر میں زیر آیت دو قول مروی ہیں:
پہلا قول خیر و شر کے راستے میں ہی ہے جبکہ دوسرا قول یہ ہے: ’’اس سے مراد بچے کے لیے ماں کی پستان کی طرف رہنمائی ہے، جن سے بچے کو غذا ملتی ہے جس سے اُس کے بدن میں گوشت بنتا ہے اور جسم نشو ونما پاتا ہے۔ یہ قول عیسیٰ بن عقال نے ابن عباس سے، جوبیر نے ضحاک سے نقل کیا اور یہی قول سعید بن مسیب وغیرہ سے بھی مروی ہے۔ وروي عن ابن عباس وسعيد بن المسيب، أنهما الثديان، ومن قال ذلك ذهب إلى أنهما كالطريقين لحياة الولد ورزقه، والله تعالى هدى الطفل الصغير حتى ارتضعه.‘‘

بات وہی ہے کس کے پاس کتنی ترجمہ کرنے کی فہم ہے کون کس انداز میں ترجمہ کر رہا ہے، آپ اور آیات دیکھ لیں:
وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللّہُ وَاللّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَO (الانفال:30)
ترجمہ: ’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔‘‘
’’اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔‘‘ (کنز الایمان، احمد رضا بریلوی)
إِنَّ اللَّہَ وَمَلَآئِکَتَہ، یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیماًO (الاحزاب:56)
ترجمہ: ’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجو (یعنی تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دعا کرو اور پوری طرح دل و جان سے ان کا ساتھ دو ان کی مخالفت سے پرہیز کرو)۔‘‘
آپ خود دیکھ لیں کہ بریکٹ کے معنی ترجمہ سے کتنے مختلف ہیں۔

لہٰذا میری آپ سے گذارش ہے کہ خدارا ان جیسے عقائد کے مسئلوں کو بلاگ وغیرہ پر شیئر نہ کیا کریں، کل کو کوئی اور بریلوی صاحب آپ پر پورا بلاگ بناکر جب لکھا کریں گے تو پھر کسی کو جواب دینے کا موقع بھی نہیں ملے گا اور نہ ہی کوئی دینے کے قابل ہوگا۔ اور پھر اردو بلاگنگ میں وہ بات نہیں رہے گی جو آج ہے، مجھے اُمید ہے کہ آپ میری اس بات کو سنجیدہ لیتے ہوئے اس پر غور کریں گے، آپ ہمارے سینیر بلاگ ہیں میں آپ کی تہہِ دل سے عزت بھی کرتا ہوں اور آپ کی تحاریر سے اچھی طرح واقف ہوں اور آپ کے اخلاق کو بھی پسند کرتا ہوں اور آپ کو فالو بھی کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اُمید ہے چھوٹا بھائی سمجھتے ہوئے ان چند باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔

اجمل صاحب:
مرزا صاحب
میں آپ کے ان جملوں سے اتفاق کرتا ہوں ۔ ایک ۔ قرآن شریف ہمیشہ کیلئے ہے ۔ دو ۔ خواہ مخاطب رسول اللہ ﷺ ہوں آیات کا اطلاق تمام مسلمانوں پر ہوتا ہے ۔ سوم ۔ مسلمان کیلئے قرآن شریف کی ہر آیت پر یقین رکھنا لازم ہے ۔ بلکہ میں اس میں اضافہ کروں گا کہ رسول اللہ ﷺ کی سُنّت کی پابندی بھی ہر مسلمان پر لازم ہے اور قرآن و حدیث سے ہٹ کر عمل کرنا بدعت ہے۔
آپ نے بہت محنت کی ہے جس سے میں متاءثر ہوا ہوں لیکن جس بات کو آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں وہ ثابت نہیں ہو رہی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص خُلفائے راشدین سے بڑھ کر کس نے قرآن شریف کو سمجھا اور قرآن شریف اور حدیث پر عمل کیا ؟ ان میں سے کسی نے میلادالنبی کا جشن نہیں منایا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے تین سو سال بعد تک بھی میلادالنبی کا جشن منانے کا کہیں سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ جو سمجھتا ہے کہ وہ قرآن شریف اور حدیث کو خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بہتر سمجھا ہے تو میں اُس کیلئے دعا ہی کر سکتا ہوں ۔ اگر رسول اللہ ﷺ سے محبت ہے تو اس کے اظہار کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اُن کے ذریعہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے جو راستہ ہمیں بتایا ہے اس پر مکمل طور پر چلیں ۔ اللہ مجھے بہی درست راہ پر قائم کرے۔

ایک وضاحت پر ایک اور تبصرہ اجمل صاحب:
میں آج تک صرف یہی سمجھ پایا ہوں کی اوّل قرآن شریف پھر حدیث پھر صحابہ ؓ پھر اُن کے شاگرد ۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد جو چیز معروف طریقہ سے 300 سال تک نہ ہوئی اور بعد میں پیدا کی گئی وہ درست نہیں مانتا۔

میرا تبصرہ:
جناب اجمل صاحب!
متاثر ہونے کا شکریہ
لیکن اگر کسی بات کو اپنے اوپر فرض کرلیا جائے کہ نہیں ماننی تو اُس کو پھر کسی طریقے سے نہیں سمجھایا جاسکتا!!!
اب میں نے قرآن کی دو واضح آیات پیش کردی ہیں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ خلفائے راشدین نے نہیں منایا۔

جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالتﷺ میں قصیدہ پڑھ کر جشن منایا کرتے تھے۔ (حدیث) ’’سرکارﷺ خود حضرت حسان کے لیے منبر رکھا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر سرکارﷺ کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھیں اور سرکارﷺ حضرت حسان کے لیے دعا فرماتے کہ اے اللہ! روح القدس (جبریل علیہ السلام) کے ذریعے حسان کی مدد فرما‘‘۔ (صحیح بخاری: 1/ 65)
ہم بھی تو محافل میں حضورﷺ کی بارگاہ میں نعت پیش کرتے ہیں اس میں کیا حرج ہے۔

اور جہاں تک رہی بات کہ خلفائے راشدین نے اس طریقے سے نہیں منایا، تو پہلے تو یہ کہ اُوپر آپ خود لکھ کر آئے ہیں کہ جو کام قرآن و حدیث سے سے ہٹ کر کیا جائے وہ بدعت ہے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بدعت کی بھی دو اقسام ہوتی ہیں، ایک بدعت حسنہ اوردوسری بدعت سیئہ۔ حضورﷺ کے بعد حضرت عمر نے چھبیس وہ کام شروع کیے جو حضورﷺ کے زمانے میں نہیں تھے مثلاً سن ہجری، اور تراویح کا باجماعت ادا کرنا اور بے شمار، اُس کے بعد حضرت عثمان نے بھی اسی طرح چند چیزیں نئی شروع کیں مثلاً اُس دور میں کئی قرأت تھیں تو حضرت عثمان نے ایک قرأت جو کہ قبیلہ قریش کی قراءت تھی وہ مقرر کی اور اسی طرح حضرت عثمان نے جمعہ کی نماز کے لیے دو اذان شروع کروائیں جو کہ آج تک ہو رہی ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ بدعت حسنہ ہیں۔

آپ کا دوسرے جملہ کا مفہوم ’’جو کام حضورﷺ اور حضورﷺ کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ نے نہیں کیا وہ ہم نہیں کرسکتے۔

تو جس طرح آج کے مدارس (پکے) اور خانقاہیں اور مسافر خانے بنائے جاتے ہیں اور سب مسلمان ان کو فعل ثواب سمجھتے ہیں کیا کوئی ثبوت دے سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بنائے یا بنوائے تھے یا کوئی ثبوت دےسکتا ہے کہ جس طرح میلادِ رسول اب منائی جاتی ہے اس طرح منانے سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے، اور جب ممانعت کا ثبوت نہیں دے سکتا اور بے شک ہرگز نہیں دے سکتا تو جس چیز سے اللہ اور رسول نے منع نہ فرمایا دوسرا کوئی منع نہیں کرسکتا ورنہ وہ اپنے دل سے شریعت گڑھے گا۔ ان الذین یفترون علی اللہ الکذب لا یفلحون متاع قلیل ولھم عذاب الیم۔

اب میں وہ کام بتاتا ہوں جو خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی نہیں ہوئے اور بعد میں شروع ہوئے اور آج تک ہو رہے ہیں تو اگر ہم ان چیزوں کو غلط ماننا شروع کردیں تو سب سے پہلے قرآن پاک کے اعراب غلط قرار پائیں گے کیونکہ یہ کام عہد رسالت اور عہد خلافت کے بعد( حجاج بن یوسف کے زمانے میں) ہوا ہے۔ اسی طرح مساجد کے مینار اور محراب غلط قرار پائیں گے اور سب سے پہلے حرمین طیبین کے میناروں کے متعلق سوال ہوگا، کیونکہ حرمین شریفین کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ خود گنبد خضراء(جو عین قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تعمیر ہے) کا معاملہ معرضِ خطر میں ہوگا۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث کا وجود بھی ناقابل تسلیم ہوگا کیونکہ عہد رسالت و صحابہ میں ان کتب کا (مخصوص ترتیب کے ساتھ) وجود نہیں تھا۔ اسی طرح اگر دیکھتے چلے جائیں تو بے شمار چیزیں ایسی سامنے آئیں گی جو عہد رسالت و صحابہ میں نہیں تھیں، لیکن اب ان پر مسلمان بہت فراخدلی سے عمل پیرا ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی عقلمند ان چیزوں کو ناجائز یا ان کو ختم کرنے کا قول نہیں کرے گا۔

ہم اپنے زمانے میں دیکھتے ہیں کہ ہر مکتب فکر کی مسجد میں ایک مخصوص وقت پر جماعت قائم ہوتی ہے اور یہ وقت گھڑی کی مدد سے متعین کیا گیا ہے، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جماعت کیلئے اوقات متعین نہیں تھے۔ اسکے باوجود کوئی اس عمل کو ناجائز نہیں کہتا۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس میں عام معمول یہ تھا کہ صحابۂ کرام مساجد میں صرف فرض نماز ادا کرتے تھے اور سنن و نوافل اپنے اپنے گھروں میں ادا کرتے تھے یا ادا کرکے آتے تھے۔ (سنن ابو داوٴد، رقم الحدیث: ۱۰۴۴) جبکہ فی زمانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا یہ طریقہ تمام مکاتب فکر کی مساجد میں بالعموم متروک ہوچکا ہے اور اب حال یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی لوگ فرائض کے ساتھ سنن و نوافل بھی مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح دینی مدارس میں تعلیمی سال کے اختتام پر ختم بخاری شریف کی تقریب منعقد ہوتی ہے، حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ بخاری شریف تھی اور نہ اسکا ختم ہوتا تھا۔ یوم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر جلوس، ربیع الاول کے ایام میں ”سیرت کانفرنس“ کے عنوان سےجلسے، مختلف علماء کے ایصال ثواب کے لئے دارالعلوم میں بڑے پیمانے پر اجتماعی قرآن خوانی کا اہتمام، یہ وہ سب کام ہیں جو حضورﷺ اور عہد خلفافت میں نہیں تھے۔

ایک یہ بھی بات لوگ بلا دلیل کہتے ہیں کہ ”ہر بدعت اور نئی چیز بری ہے“۔ حالانکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ہر بدعت بری نہیں ہوتی بلکہ بعض بری ہوتی ہیں اور بعض اچھی۔ اچھی بدعت پر اجر و ثواب ہے اور بری بدعت پر گناہ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَنْ سَنَّ فِیْ الاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہ اَجْرُھَا وَ اَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شِئٌ وَ مَنْ سَنَّ فِیْ الاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَئٌ “۔ (ترجمہ) جس نے دین اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اسے اس ایجاد کا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا اجر و ثواب ملتا رہے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی(جبکہ وہ شخص) جس نے دین میں برا طریقہ رائج کیا تو اس پر اس ایجاد کا اور اسکے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا بوجھ رہے گا اور عمل کرنے والوں کے بوجھ میں کمی نہیں ہوگی۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: صحیح مسلم: حدیث ۱۰۱۷/ سنن نسائی:حدیث ۲۵۵۴/ مسند احمد: ج۴، ص۳۵۹/مشکوة المصابیح:حدیث ۲۱۰،ص۳۳)

اس حدیث میں واضح طور پر دین اسلام میں اچھے طریقے ایجاد کرنے پر اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے۔ اگر ہر نیا طریقہ اور ہر بدعت اسلام میں ممنوع ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اجر و ثواب بیان نہ فرماتے۔ معلوم ہوا کہ ہربدعت کو برا سمجھنا محض نادانی اور شریعت سے بے خبری ہے۔
ایک آخری بات یہ واضح رہنی چاہیے کہ ہم میلاد رسول کو فرض یا واجب نہیں کہتے، ہم صرف اس کومستحب کہتے ہیں بلکہ بعض تو مباح بھی کہتے ہیں، تو اعتراض جب قابل قبول ہوگا جب ہم اس کو فرض یا واجب کہیں یا اس کو نہ کرنے پر گناہ تصور کریں۔
اُمید ہے اس تفصیلی گفتگو سے آپ میری بات کو بغور سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ وما توفیقی الا باللہ

اجمل صاحب:
مرزا صاحب
آپ بلا وجہ اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ میں نے کونسی خانقاہ کا ذکر کیا ہے جو آپ اسے لے بیٹھے ہیں اور دوسرے قصے لے بیٹھے یہن جن کا میری تحریر سے کوئی تعلق نہیں ؟ شائع شدہ اصول کے مطابق آپ کا یہ تبصرہ حذف کیا جانا چاہیئے تھا۔

میرا آخری تبصرہ:
اگر آپ کو لگتا ہے کہ میرا تبصرہ اس قابل نہیں ہے تو آپ بالکل حذف کردیجیے، بات یہ ہے کہ آپ خود کہتے ہیں کہ جو چیز بعد میں‌شروع کی گئی میں نہیں مانتا تو میں تو فقط یہ ہی سمجھانے کی کوشش رہا ہوں کہ پھر تو سینکڑوں ایسی چیزیں ہیں جو آج ہو رہی ہیں اور حضور کے زمانے میں نہیں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں‌تو بخاری شریف بھی نہیں تھی۔ اللہ سمجھنے کی توفیق دے۔
یہ میرا آخری تبصرہ ہے کسی بھی بات کو میری طرف سے برا لگنے پر معذرت۔ الحمدللہ کہ میں نے اپنی جان کے لیے کسی کو کچھ نہیں کہا، ہاں البتّہ شریعت کے احکام کو سمجھانے میں اگر میں نے شدّت کو اختیار کیا ہے تو وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کے مطابق اختیار کیا ہے اُس میں اگر کسی کا دل دُکھّا ہو تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ میں اللہ کی رِضا چاہتا ہوں؛ اللہ کے بندوں کی رِضا سے مجھے کوئی بحث نہیں۔ مَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ۔
0 Responses

Post a Comment